Bay Samar peer pay pathar Nahi Aatay such hay
غزل
بے ثمر پیڑ پہ پتھر نہیں آتے سچ ہے
پاس دریا کے سمندر نہیں آتے سچ ہے
ہاتھ آیا ہے اسی آنکھ کا موتی یارو
ایسے مٹھی میں سمندر نہیں آتے سچ ہے
ہم کو دکھلانا تھا مقصود تبھی تو ورنہ
اس طرح ڈھائی قلندر نہیں آتے سچ ہے
مطمئن ہوں کہ چلے آتے ہو ملنے یارو
گھر ہمارے تو سکندر نہیں آتے سچ ہے
کیسے حیران مجھے تکتے ہیں تارے سارے
یوں زمیں پر کبھی امبر نہیں آتے سچ ہے
ان کے قدموں تلے اک روز جو آئے ہوں گے
ہاتھ میرے تو وہ کنکر نہیں آتے سچ ہے
یہ حسیں شام میں پہچانی سی دستک کیسی
ورنہ تو خواب مکرر نہیں آتے سچ ہے
اس پری زاد کا در پر مرے آنا فہمی
یہ بلانے پہ بھی اکثرنہیں آتے سچ ہے
فریدہ عالم فہمی
Fareeda Aalam Fehmi