نظم
بے ضمیروں کو سبق ایسا سکھایا جائے
جرم پھر کوئی نہ اس دیس میں پایا جائے
خوں بہاتا ہے جو انصاف کا مکاری سے
ایسے منصف کو بھی سولی پہ چڑھایا جائے
نورِحق سے رہے رخشندہ ہر اِک دیدہئ جاں
اِن چراغوں کو کسی پل نہ بجھایا جائے
رہزنوں اور لٹیروں کو بھگا کر دم لیں
اب خلاف انکے تو اِک حشر اٹھایا جائے
حکمراں روز دکھاتے ہیں ہمیں آئینہ
حکمرانوں کو بھی آئینہ دکھایا جائے
کاش مل جائے کہیں سے جو عصائے موسیٰؑ
پھر تو اس دور کے فرعون کو ڈھایا جائے
ایسے ناداں جو بصیرت سے ہیں محروم انہیں
درس قرآن کا حکمت سے پڑھایا جائے
زہر آلود فضا میں یہ پڑی ہیں لاشیں
آستینوں میں نہ اب دودھ پلایا جائے
تم کو گر دین کا مفہوم سمجھنا ہے صحیح
زخمِ انساں پہ بھی مرحم کو لگایا جائے
زندگی کیسے گزارو یہ بتاؤں تم کو
دل کسی کا بھی ذرا سا نہ دُکھایا جائے
ہو چکا جو بھی ابھی تک سو ہوا
ملک میں اب صفِ ماتم نہ بچھایا جائے
کہتے حشامؔ اگر ہیں تو صحیح کہتے ہیں
قوم کے حق میں کوئی کام دکھایا جائے
حشام احمد سید