بے نمو خواب کا یہ بُور نہیں جاتا ہے
آنکھ سے ہجر کا عاشور نہیں جاتا ہے
تو نے خوشبو سے بھرے لوگوں کو مایوس کیا
تو نے چھڑکا ہے جو کافور نہیں جاتا ہے
کچے دھاگے سا تعلق ہے خبر ہے اس کو
دور جاتا ہے، مگر دور نہیں جاتا ہے
منتظر رہتا ہے درویش یہیں صاحب کا
بات کرنے کو سرِ طُور نہیں جاتا ہے
سینہ و بختِ سیہ تو نے نظر بھر دیکھا
بخت و سینہ سے ترا نور نہیں جاتا ہے
وہ الجھتا ہے عدالت سے بھی، حاکم سے بھی
یونہی اب دار پہ منصور نہیں جاتا ہے
زندگی ، یا کہ اسے موت بلاوا بھیجے
اک صدا سے پرے مفرور نہیں جاتا ہے
قیوم طاہر