تاریکیوں میں ماہِ مُنور تراش کر
چلتے رہے ہیں ایسے ہی منظر تراش کر
سائے میں چلنے والے مسافر ذرا سنبھل
رستے میں دُھوپ بیٹھی ہے تیور تراش کر
اندر تلک وہ پُتلے سبھی نِکلے سنگ دِل
دیکھے بہت ہیں ہم نے بھی پتّھر تراش کر
سُورج اکڑ کے رہتا ہے دن بھر اسی لیے
آتا ہے روز شب کی وہ چادر تراش کر
تقدیر ایسی ہوتی ہے کُچھ لوگوں کی یہاں
لائے ہوں ساتھ جیسے مُقدر تراش کر
اصنام جو تراشے وہ دُنیا کے ہو گئے
مُمکن ہُوا تو ایک قلندر تراش کر
ہر دِن دکھائی دیتی ہے ہم میں کوئی کمی
کتنے گئے ہیں ہم کو پیمبر تراش کر
جاویدؔ ایک ساتھی سبھی نے بنا لِیا
لائے گا جنوری بھی دسمبر تراش کر
جاوید احمد خان جاوید