ترے ہم چاہنے والے عجب دلدل میں اترے ہیں
یہ بادل ہم پہ اترے ہیں یا ہم بادل میں اترے ہیں
تو اپنی زلف کی چھاؤں مہیا کر دے اب ہم کو
بہت سی خواہشیں لے کر کسی جنگل میں اترے ہیں
بہت ظالم ہمارے وقت کا حاکم ہے لیکن ہم
فقط شوقِ شہادت وقت کے کربل میں اترے ہیں
کوئی منزل کوئی رستہ دکھائی بھی نہیں دیتا
ہم اہلِ دل ہیں اور خاموش اک مقتل میں اترے ہیں
ہیں ہم گوشہ نشیں درویش سے شاعر نما بندے
سو محوِ استراحت خواب اک چنچل میں اترے ہیں
کفن لینے کے بھی لالے ہیں ہم کو اور کچھ بندے
یہاں ایسے بھی ہیں جو قیمتی مخمل میں اترے ہیں
کوئی تصویر آنکھوں میں سجا کر آج ہم آصف
کسی کی آنکھ سے بہتے ہوئے کاجل میں اترے ہیں
آصف نقوی