غزل
تصور کی دہلیز پر تھی کھڑی
کلیجے میں کیوں تیر بن کر گڑی
فروزاں ہوئی خلوت ماہتاب
مجھے یاد ہے وہ سماں وہ گھڑی
جھمکنے لگی عرش اعظم کی جوت
نگاہوں پہ اک چھوٹ ایسی پڑی
جو چاہا تھا مانگا نہ تھا مل گیا
لڑی آنکھ اس سے تو ایسی لڑی
کبھی کھلکھلا کر ہنسا بھی کرو
لگائی بہت آنسوؤں کی جھڑی
سعید الظفر چغتائی