Talash meri thee aur bhatak raha tha wo
غزل
تلاش میری تھی اور بھٹک رہا تھا وہ
پیاس میری تھی اور ہمک رہا تھا وہ
ہمارے خون سے کانٹے عروس تک پہنچے
گلاب میرے تھے اور مہک رہا تھا وہ
خرید لایا میں بوتل تو ناچ اٹھا تھا
شراب میری تھی اور بہک رہا تھا وہ
نجانے کونسا صدمہ اسے ستاتا ہے
خوشی تو میری تھی اور چہک رہا تھا وہ
یہ دوستی کا تعلق عجیب ہوتا ہے
سزا ملی تھی مجھے اور سسک رہا تھا وہ
خالد میر
Khalid meer