تماشا گر نے بھی کیا تماشا لگا دیا ہے
جو تیغ زن تھے انھیں کھلونا بنا دیا ہے
ہمارے کاندھوں پہ کس نے کرگس بٹھا دیے ہیں
ہمارے سر سے ہُما کو کس نے اڑا دیا ہے
یہ کس نے صبح و صبا کی خوشبو کا رستہ روکا
یہ کس نے اڑتے دھوئیں کے پیچھے لگا دیا ہے
ہمیں خبر، تم شکاریوں سے ملے ہوئے تھے
شجر میں بیٹھا ہوا پرندہ اڑا دیا ہے
ہمیں یہ دکھ ہے کہ خوش گمانی کا کانچ بکھرا
جو دیکھنا ہم نہ چاہتے تھے دِکھا دیا ہے
میں تیرے صدقے، میں تیری چارہ گری کے صدقے
جو ہنستا بستا تھا شہر اُس کو رلا دیا ہے
وہاں پہ بونوں کی صف تھی اور سرکشیدہ میں تھا
جو قدوقامت تھا میرا کتنا گھٹا دیا ہے
قیوم طاہر