غزل
تمہارے حسن کو تصویر بام کر دیں گے
غزل پہ آئے تو مطلع میں کام کر دیں گے
مخالفین کا سب انتظام کر دیں گے
نہ مانے لوگ تو وہ قتل عام کر دیں گے
ہمارے سامنے مت کر گھمنڈ حکومت کا
ابھی ذرا میں تجھے بے مقام کر دیں گے
بڑھاؤ تیز قدم منزلیں بلاتی ہیں
یہ راہ بر ہیں یہ رستے میں شام کر دیں گے
ہم اور کیا نئی پیڑھی کو دیں وراثت میں
جو دل میں زخم ہیں بچوں کے نام کر دیں گے
شراب پیتے ہی غم اور بھی ابھر آئے
چلے تھے درد کو تحلیل جام کر دیں گے
نیازؔ لکھ کے ہم اس کی مخالفت میں غزل
قلم کو قابل صد احترام کر دیں گے
عبدالمتین نیاز