توجہ ان کی مجھ پر کم نہیں ہے
اگر اب غم بھی ہے تو غم نہیں ہے
خلش دل میں ابھی پیہم نہیں ہے
ابھی کچھ اعتبارِ غم نہیں ہے
اسی کا نام ہے شاید زمانہ
جو کل تھا آج وہ عالم نہیں ہے
تمہاری زلف ہے کیوں منتشر سی
نظامِ دہر تو برہم نہیں نہیں ہے
یہ کہتے ہیں ترے نازک اشارے
کہ پیمانِ وفا محکم نہیں ہے
فدا پہچانتی ہے ہم کو دنیا
ابھی نقشِ وفا مدھم نہیں ہے
فدا خالدی