توڑ کر جوڑ دیا کرتے ہو کیا کرتے ہو
دل پہ یوں مشق جفا کرتے ہو کیا کرتے ہو
راز دل فاش کیا کرتے ہو کیا کرتے ہو
نام سے میرے حیا کرتے ہو کیا کرتے ہو
روز اقرار وفا کرتے ہو کیا کرتے ہو
زخم دل پھر سے ہرا کرتے ہو کیا کرتے ہو
تم سے منسوب ہے اک عہد وفا کا اقرار
تم بھی توہین وفا کرتے ہو کیا کرتے ہو
شیشۂ دل کے برتنے کا سلیقہ دیکھو
تم تو بس توڑ دیا کرتے ہو کیا کرتے ہو
شوق کو پہلے ذرا حد سے سوا ہونے دو
درد کو حد سے سوا کرتے ہو کیا کرتے ہو
عشوۂ جاں طلبی مورد الزام نہ ہو
مجھ سے کہتے رہو کیا کرتے ہو کیا کرتے ہو
ہر گھڑی اس لب شیریں کا تصور اخگرؔ
تلخ جینے کا مزا کرتے ہو کیا کرتے ہو
حنیف اخگر