غزل
تیر ختم ہیں تو کیا ہاتھ میں کماں رکھنا
اس مہیب جنگل میں حوصلہ جواں رکھنا
کیا پتا ہوائیں کب مہربان ہو جائیں
پانیوں میں جب اترو ساتھ بادباں رکھنا
رنجشیں بھلا دینا فاصلے مٹا دینا
اک مہین سا پردہ پھر بھی درمیاں رکھنا
ہم بھی ہونٹ سی لیں گے جی سکے تو جی لیں گے
کیا کوئی ضروری ہے بولتی زباں رکھنا
یہ گھڑی تو آئی تھی یوں ہی سرگرانی تھی
اب فضول لگتا ہے کوئی سائباں رکھنا
لہر لہر بکھری ہے قہر قہر دریا میں
بے جواز لگتا ہے سعیٔ رائیگاں رکھنا
دوسروں کی ضد ہوں میں کتنا منفرد ہوں میں
یہ بھی کیا کہ سب جیسا سر پہ آسماں رکھنا
شفیق سلیمی