ثبوت اشتیاق ہمرہی لاؤ تو آؤ
حصار ذات سے باہر نکل پاؤ تو آؤ
زمانوں سے فقط لہریں گمانوں کی گنو ہو
کسی دن تم یہ دریا پار کر جاؤ تو آؤ
حد خواہش میں جینا ہے تو جاؤ راہ اپنی
نہ دشت شوق کی وسعت سے گھبراؤ تو آؤ
عجب بے اختیارانہ تھی ہر آمد تمہاری
اسی موج محبت میں کبھی آؤ تو آؤ
یہ درویشوں کی دنیا ہے کرشمے اس کے دیکھو
جہاں سے ہی نہیں خود سے بھی اکتاؤ تو آؤ
رفاقت اہل غم کی اک نشاط مختلف ہے
جو رکھتے ہو جگر میں درد کا گھاؤ تو آؤ
ہمیں اس حکمت دوراں کا اک نکتہ بہت ہے
اگر دھن ہے الٹ دیں وقت کے داؤ تو آؤ
جلیل عالی