Judaee Kab thee Kahan Hoi thee main iss say bhi bay Khabar Gaya Hoon
غزل
جدائی کب تھی کہاں ہوئی تھی میں اس سے بھی بے خبر گیا ہوں
تو سایہ آسا تھا ساتھ میرے میں تجھ سے چھٹ کر جدھر گیا ہوں
مجھے سمیٹو! تو میرے اندر نئے معانی ہیں نقش بستہ
کتاب خود آگہی ہوں لیکن ورق ورق میں بکھر گیا ہوں
مری طبیعت کے ساحلوں پر ہے مرگ آ سا سکوت طاری
یہ پیش خیمہ ہے آتے طوفاں کا جس کی شدت سے ڈر گیا ہوں
وہی شب و روز زندگی کے ، ہنسی بھی ، اشکوں کے سلسلے بھی
مگر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اندر سے مر گیا ہوں
مرے سوا کون ہے کہ جس نے معاشِ غم اختیار کی ہے
میں ایک الزامِ زندگی تھا سو آج اپنے ہی سر گیا ہوں
سلیم احمد
Saleem Ahmed