جو تیرگی کو مٹادے وہ روشنی ہوجا
فنا جو کردے جہالت وہ آگہی ہوجا
خدا شناسی تری دسترس سے باہر ہے
تو اپنے آپ کو پہچان اور ولی ہوجا
اگر گزر ہو ترا نفرتوں کی بستی سے
جہاں قیامِ محبت ہو وہ گلی ہوجا
ہے تیری ذات میں موجود حق بھی باطل بھی
ہے اختیار تجھے، چاہے جو، وہی ہوجا
حریصِ دارِ فنا دل کو مت بنا اپنے
ہوائے نفس سے بچ، حرص کی نفی ہوجا
جبین خاک پہ رکھ، اوجِ بندگی پالے
مٹادے ظلمتِ عصیاں رخِ جلی ہوجا
کھِلا گلاب ہی رونق نہیں گلستاں کی
نہ بن سکے تو اگر گُل تو اک کلی ہوجا
تلاشِ نقشِ کفِ پائے مصطفیٰ میں نکل
سگِ گدائے درِ زہرا و علی ہوجا
کسی دکھے ہوئے دل کو صبا ؔ خوشی دے کر
جو چشمِ دل میں اتر آئے وہ نمی ہوجا
کلام: صبا عالم شاہ