غزل
جو سوچتا ہے تو ویسا ہی حال تھوڑی ہے
سمجھنا جھوٹ کو بھی سچ کمال تھوڑی ہے
ہے کچھ ہی لمحے کو یہ ظلمتوں کا ڈیرا بھی
کہ زیست تیرگی بھی ماہ و سال تھوڑی ہے
بہت غرور ہے کیوں تجھ کو تیری شہرت پر
کہ شہرتوں کی فقط تو مثال تھوڑی ہے
ہیں مشکلوں سے بھری راہیں اور تنہا سفر
ابھی پڑاؤ ہے منزل مآل تھوڑی ہے
سفر میں کومہ کو منزل سمجھنے والے سن
مرا عروج ابھی ہے زوال تھوڑی ہے
تو اتنی حسرتوں سے مجھ کو پڑھ رہا ہے کیوں
غزل میں میرا ہے تیرا خیال تھوڑی ہے
ان آنسوؤں کو شغفؔ صبر کیسے آئے گا
یہ شام ہجر ہے صبح وصال تھوڑی ہے
پروین شغف