غزل
جو کچھ کیا سو ہم نے کیا اپنی چاہ سے
اب شکوہ کیجیے نہ کچھ اس رشک ماہ سے
عاشق کے روزگار کو اس نے سیہ کیا
کاکل سے خط سے زلف سے خالی سیاہ سے
تاب و توان و دین و دل و عقل و صبر و ہوش
وہ شوخ مجھ سے لے گیا سب اک نگاہ سے
کی چرخ کج روش نے یہ کیا کج ادائی خرچ
جو ہم کو آشنا کیا اس کج کلاہ سے
کثرت نجوم کی نہ فلک پر یہ سمجھیو
غربال ہو گیا ہے مرے تیر آہ سے
اس شوخ خود پسند سے پوچھے کوئی سہی
ثابت ہوا ہے قتل مرا کس گناہ سے
پیارے عبث ہوئے ہو جہاں دارؔ سے خفا
بے دل نہ ہو تم ایسے دلی خیر خواہ سے
مرزا جواں بخت جہاں دار