Jheelain Gay ham azzar pay aazar Kahan Tak
غزل
جھیلیں گے ہم آزار پہ آزار کہاں تک
خود دار پہ چڑھتے رہیں خوددار کہاں تک
ہر روز جہاں اک نئی دیوار کھڑی ہو
رکھ پاؤ گے اس گھر کو ہوادار کہاں تک
مہنگائی نے فاقوں سے ملاقات کرادی
فاقوں سے گلے ملتے رہیں یار کہاں تک
ملا کو بھی اب کھانے کو ملتی نہیں مرغی
کہتا ہے کریں چار کا پرچار کہاں تک
قرضے کے لیے قرضہ ارے قرضے پہ قرضہ
یوں ملک چلائے گی یہ سرکار کہاں تک
ہے تیل بہت نکلا بھی پر قوم کا نکلا
یوں تیل نکالیں گے یہ سالار کہاں تک
لائٹ کے بنا ایک ہی بازار چلے ہے
جائے گا کوئی ایک ہی بازار کہاں تک
ہے گیس بہت اپنے کنے پیٹ میں ہے پر
محفل کو کیے جائیں ہوادار کہاں تک
کب تک ہمیں اک رخ ہی دکھاؤ گے تم اپنا
چومے گا کوئی ایک ہی رخسار کہاں تک
حیدر حسنین جلیسی
Haider Hussnain Jaleesi