جہاں کی بھیڑ میں جو بھی ملا ، ملا تنہا
سفر میں ساتھ تھے سب پر ہر ایک تھا تنہا
ستارے لاکھ چلے اس کے ساتھ ساتھ مگر
سحر کے ہوتے ہی پھر آسماں ہوا تنہا
یہ ایک قطرے کی کوشش تھی بس سمندر میں
وہ بادلوں میں اُڑا تو ، مگر گرا تنہا
غموں نے مجھ کو بنا ہی دیا تیرے قابل
خوشی ملی تو میں کترا کے چل دیا تنہا
سبھی تھے اپنے جو بیٹھے تھے گھیر کر مجھ کو
کوئی نہ ساتھ ہوا اٹھ کے جب چلا تنہا
جنونِ رازؔ کی شدت تھی دیکھنے جیسی
وہ ایک آئینہ لے کر بہت ہنسا تنہا
رازداں راز