Jaisay Chaha Tha umar waisay tu Chahay na Gayee
غزل
جیسے چاہا تھا عمر ویسے تو چاہے نہ گئے
وصل کے ہوتے ہوئے ہجر کے خدشے نہ گئے
ساتھ رہنے کے ارادے سے ملے تھے لیکن
اس طرح بچھڑے کہ پھر ساتھ میں دیکھے نہ گئے
اتنی شدت سے کیا وار نظر سے تو نے
دل کے ٹکڑے ہوئے اتنے کہ سمیٹے نہ گئے
اس طرح عمر خرابے میں گزاری اپنی
لاکھ جھٹکے پہ تری یاد کے لمحے نہ گئے
ایک مرجھائے ہوئے پھول سے عبرت پکڑی
ہم سے تا عمر کبھی پھول ہی توڑے نہ گئے
شعر کہنے کو تو کہہ سکتا تھا اچھے لیکن
مجھ سے الفاظ کسی ڈھنگ سے برتے نہ گئے
وقت کی آری بہت تیز تھی پر جانِ عمر
اس سے بھی ہجر کے لمحات یہ کاٹے نہ گئے
عابد عمر
Aabid Umar