غزل
حاصل ہجر و انتظار کہاں
میں کہاں اور وصل یار کہاں
تم اگر اب شریک حال نہیں
ہم بھی ہیں اپنے غم گسار کہاں
غم نصیبی کا غم نہیں لیکن
غم نصیبوں کا اعتبار کہاں
دور دورہ ہے بے قراری کا
اب کسی کو کہیں قرار کہاں
دل کسی کام میں نہیں لگتا
اب وہ ذوق نشاط کار کہاں
وہ تو اک اتفاق تھا شوکتؔ
لذت دید بار بار کہاں
شوکت پردیسی