حد سے بڑھ گیا میرا یہ ملال رستے میں
وقت چل گیا ہم سے ایک چال رستے میں
یہ ہمارے اجڑے گھر اور نڈھال دیواریں
بار بار کرتے ہیں کیوں سوال رستے میں
ہجرتوں کے غم سارے اور یہ مریضِ دل
ہو نہیں سکی بہتر دیکھ بھال رستے میں
مٹ گئیں جو تصویریں جل گئے جو چوبارے
وہ دکھائی دیتے ہیں پر ملال رستے میں
خالی ہاتھ پہنچے ہم منزلِ تمنا پر
خواب ہوگئے سارے پایمال رستے میں
جیسے اب مجسم ہو وقت یاد کی صورت
یوں دکھائی دیتے ہیں ماہ و سال رستے میں
دائرے میں یادوں کے ہم رہے سفر کرتے
اور بدل گیا موسم بے مثال رستے میں
خود سے ہم تو ریحانہ بے طرح پشیماں ہیں
جب سے پوچھ بیٹھے ہیں اس کا حال رستے میں
ریحانہ احسان