خاک پر خاک کی ڈھیریاں رہ گئیں
آدمی اٹھ گئے نیکیاں رہ گئیں
۔
کس کی تعلیم کا آخری سال تھا
چوڑیاں بک گئیں بالیاں رہ گئیں
۔
عشق اک روپ تھا حسن کی دھوپ کا
یاد کیوں دھوپ کی سختیاں رہ گئیں
۔
خون میں گھل گئیں سانولی قربتیں
تن میں تپتی ہوئی ہڈیاں رہ گئیں
۔
درد انگور کی بیل تھے پھل گئے
غم کشوں کے لیے تلخیاں رہ گئیں
۔
عرصۂ فسق میں قسمت عشق میں
حکمت آمیز پسپائیاں رہ گئیں
۔
قمقموں کی طرح قہقہے جل بجھے
میز پر چائے کی پیالیاں رہ گئیں
۔
اس بلندی پہ ہم نے پڑاؤ کیا
جس کے آگے فقط پستیاں رہ گئیں
۔
حسن کے ہاتھ سے آئینہ گر پڑا
فرش پندار پر کرچیاں رہ گئیں
۔
ہم نے کاغذ کو بھی آئنہ کر دیا
لیکن اپنی سیہ بختیاں رہ گئیں
خالد احمد