loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 13:49

خاک پر خاک کی ڈھیریاں رہ گئیں

خاک پر خاک کی ڈھیریاں رہ گئیں

آدمی اٹھ گئے نیکیاں رہ گئیں

۔

کس کی تعلیم کا آخری سال تھا

چوڑیاں بک گئیں بالیاں رہ گئیں

۔

عشق اک روپ تھا حسن کی دھوپ کا

یاد کیوں دھوپ کی سختیاں رہ گئیں

۔

خون میں گھل گئیں سانولی قربتیں

تن میں تپتی ہوئی ہڈیاں رہ گئیں

۔

درد انگور کی بیل تھے پھل گئے

غم کشوں کے لیے تلخیاں رہ گئیں

۔

عرصۂ فسق میں قسمت عشق میں

حکمت آمیز پسپائیاں رہ گئیں

۔

قمقموں کی طرح قہقہے جل بجھے

میز پر چائے کی پیالیاں رہ گئیں

۔

اس بلندی پہ ہم نے پڑاؤ کیا

جس کے آگے فقط پستیاں رہ گئیں

۔

حسن کے ہاتھ سے آئینہ گر پڑا

فرش پندار پر کرچیاں رہ گئیں

۔

ہم نے کاغذ کو بھی آئنہ کر دیا

لیکن اپنی سیہ بختیاں رہ گئیں

خالد احمد

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم