خزاں تجھ پر یہ کیسا برگ و بار آنے لگا ہے
مجھے اب موسموں پر اعتبار آنے لگا ہے
کہاں دوپہر کی حدت کہاں ٹھنڈک شفق کی
سیہ ریشم میں چاندی کا غبار آنے لگا ہے
کھلیں گے وصل کے در دوسری دنیاؤں میں بھی
بالآخر ہجر کے رخ پر نکھار آنے لگا ہے
مرے اسباب میں مشکیزہ و خورجین رکھنا
سفر کی شام ہے اور ریگزار آنے لگا ہے
فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیں
کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے
محمد اظہار الحق