غزل
خط ان کو بھیجا ہے دل کے سجھاو پر ہم نے
بھروسہ کر لیا کاغذ کی ناؤ پر ہم نے
یہ دل کا زخم تو بھرنے میں ہی نہیں آتا
رکھا ہے پیار کا مرہم بھی گھاؤ پر ہم نے
یہ ایک سچ ہے کہ تم کو بھلا نہیں پائے
عمل کیا تھا تمہارے سجھاو پر ہم نے
سفینہ ڈوبنا لازم تھا اپنی ہستی کا
کہ خواہشوں کو بھی لادا تھا ناؤ پر ہم نے
فقط حیات کی تلخی نہیں ہے شعروں میں
لکھا ہے اپنے بھی ذہنی تناؤ پر ہم نے
قمار خانۂ عالم سے تجربہ جو ملا
لگا دیا ہے وہ حاصل بھی داؤ پر ہم نے
حیات دب گئی آرائشوں کے ملبے میں
گنوا دی عمر اسی رکھ رکھاؤ پر ہم نے
اوم کرشن راحت