خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں
۔
چاندنی کا سماں تھا اور ہم تم
اب ستارے پلک پلک دیکھوں
۔
جانے تو کس کا ہم سفر ہوگا
میں تجھے اپنی جاں تلک دیکھوں
۔
بند کیوں ذات میں رہوں اپنی
موج بن جاؤں اور چھلک دیکھوں
۔
صبح میں دیر ہے تو پھر اک بار
شب کے رخسار سے ڈھلک دیکھوں
۔
ان کے قدموں تلے فلک اور میں
صرف پہنائی فلک دیکھوں
عبید اللہ علیم