خواہش سخن میں سجا شاعر
میں نے بغور تحقیق کی کہ نۓ لکھنے والے اپنی کتاب سب سے پہلے سینئیر شعراء کو تحفہ میں ہیش کرتے ہیں تاکہ سینئیرز اس کا مطالعہ کریں اور اس پر راۓ دیں کچھ سینئرز تو مطالعہ کرتے ہیں مگر اظہار خیال نہیں کرتے کچھ تو راۓ دینا یا لکھنا تو دور کی بات مبارک پیش نہ کرنا یا شکریہ ادا نہ کرنا بھی اپنا حق سمجھتے جبکہ نۓ لکھنے والے کے لۓ ادبی دنیا کے سینئرز لوگ انتہائی قدر و احترام کے لائق ہوتے ہیں ۔ نیا لکھنے والا اپنا فرض پورا کرتا ہے مگر کچھ سینئیرز کا رویہ مغرورانہ گھمنڈی اور اسے تسلیم نہ کرنے کے جیسا ہوتا ہے کیونکہ وہ نیا لکھنے والا اس سینئیر کے گروپ یا ٹولی کا حصہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ نۓ لکھنے والے کا دل بجھ سا جاتا ہے اور وہ اپنی قوت مطالعہ بڑھانے کی بجاۓ اس فکر میں لگ جاتا ہے کہ اب کیا کروں خیر نیا لکھنے والا اس کے باوجود آگے بڑھتا رہتا ہے اور اک دن اپنے حصہ کی پذیرائی عوامی سطع پر حاصل کر لیتا ہے۔
وہ دور اب نہیں کہ جب نئے لکھنے والے کو کسی مشاعرہ یا تقریب میں شامل ہونے کے لۓ سال در سال لگ جاتے تھے اپنی غزل یا تحریر کو اخبارات یا رسائل میں شائع کروانے کے لۓ سفارشوں اور تعلقات کی ضروت پڑتی تھی اب تو وہ دور ہے کہ نیا لکھنے والا چند سیکنڈ میں ٹیلی ویژن چینلز , اخبارات , اور مختلف ادبی تنظیموں تک بزریعہ
سو شل میڈیا پہنچ جاتا ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ایسے وقت میں سینئرز کو ٹولی گروہوں کی بجاۓ نۓ لکھنے والوں کو خوش آمدید کہنا چاہۓ کیونکہ نۓ لکھنے والوں نے اگر سینئرز کو قدر اور احترام کے درجہ نکال دیا تو سینئیرز کے کلام کو نیا لکھنے والا بطور قاری یا بطور سامع کیسے سن کر یا مطالعہ کر کے منظر عام پر لاۓ گا۔
غور طلب بات یہ ہے نئے لکھنے والوں کو بھی کچھ سینئرز شعراء نے گروہ اور ٹولیوں میں قید کر رکھا ہے اور قید وہی نوجوان ہیں جنہیں سہارے کی ضرورت ہے جو اپنی علمی و ادبی کاوش پر مکمل بھروسہ نہیں جن کو بھروسہ ہے وہ گروہ ٹولی کا سہارا لۓ بغیر اپنے فن کو روشناس کروا رہے ہیں کسی بھی نوجوان لکھاری کے مجموعہ پر سینئرز کی راۓ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ سینئیرز کی قدر اور احترام کا قائل ہے ورنہ راۓ کی کسی سینئرز یا جونیر کو ضرورت ہی نہیں کہ وہ راۓ لکھواۓ۔ کتاب عام قاری تک پہنچ کر اپنا اپ منواتی ہے ضروری نہیں کہ شاعر تک پہنچے اور مقبول ہو اس لۓ کتاب کو کوشش کرنی چاہۓ کہ کتاب قاری تک پہنچے شاعر تو کتاب لے کر کمرہ بھرنے کے چکر میں ہوتے ہیں کہ آنے والا دیکھ کر کہے کہ اپ کی بہت بڑی لائبریری ہے بس اس بڑی اور بڑے کے چکر میں ہم سب شامل ہیں جس طرح عبداللہ عبدی نے نجانے کتنے سینئیرز اور نوجوانوں کو کتاب بطور تحفہ دی ہو گی جتنوں کو دی ان میں سے چند ہی ہونگے جنہوں نے کتاب پر بزریعہ کتاب چہرہ اپنی راۓ دی ہو گی جو اس کے قریبی دوست احباب ہی ہونگے کچھ سینیئرز نوجوانوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں سبھی ایک جیسے نہیں ہے بحرحال مجھ تک عبداللہ عبید کی رسائی بزریعہ کتاب چہرہ خطوط خانہ ہوئی جسکی وجہ سے اسکا اولین شعری مجموعہ , مشروط , مجھ تک پہنچا میں نے مطالعہ کیا اور نوجوان لکھاری کے احسا سات , جذبات , اور دل کی باتیں جاننے کے ساتھ اس کے ادبی و علمی زوق کو پرکھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ نوجوانی کے جو دن ہوتے ہیں ایسے ہی ہوتے ہیں جنکا تزکرہ , مشروط , میں بخوبی دیکھا گیا
پہلا شعری مجموعہ ان کچے خوابوں کا ہوتا ہے جو نوجوانی میں دیکھے جاتے ہیں وہ خواب جو ادھورے رہ جاتے ہیں وہ خواب جو تعبیر کے قریب پہچ کر تعبیرے نہیں جاتے انہی خیالوں کی چاہتوں کے ارد گرد گھومتے ملتے ہیں جن میں رومانوی کشش زیادہ ہوتی ہے ۔ شعر رومانی ہوں جمالی ہوں یا پھر کسی اور خیال میں ہوں شعر تو شعر ہوتے ہیں مگر اچھے شعر جو کم ازکم زندگی کے کڑھے تجربات سے گزرنے کے بعد ہوتے ہیں وہ شعر اپنا الگ سے مزاج رکھتے ایسے اشعار ادبی دنیا میں داخلے کے کم از کم 15 سال کے بعد ہی تخلیق ہوتے ہیں اس کی وجہ مطالعہ , مشاہدہ , تجربات, اور علوم سخن ہیں پھر جا کر کہیں ادبی منظر نامے میں تذکرہ ہوتا ہے بصورت دیگر ادبی دنیا میں گھر اور نام بنانے کی جگہہ کے لۓ انتھک محنت لگن شوق اور زوق کی ضرورت ہوتی اس کے باوجود پہلا شعری مجموعہ اس کے جذبات کی عکاسی کا منظر نامہ ہوتا ہے اور یہی منظر نامہ اس کے ادبی دنیا میں داخلے کا ثبوت ہوتا ہے عبیداللہ عبدی اپنے پہلے شعری مجموعہ ” مشروط ” کے ساتھ کچھ ایسے داخل ہو کہ اسےیہ کہنا پڑ گیا , شعر مطالعہ کیجۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں مقلد نہیں ہوں روایات کا
میری راہیں بغاوت سے مشروط ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
دو شعر اور مطالعہ کے لۓ
مجھ کو شبنم نہ سمجھو اہل زباں
پھول کا نالہ و فغاں ہوں میں
۔۔۔ ۔
عشق ایسا سورج ہے جس کی کرنوں سے
دور اندیش بھی نابینا ہو جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
اس بھر پور انداز کے شعر کے ساتھ ادبی دنیا میں داخلہ
کامیابی کی نوید دے رہا ہے یہی نہیں بلکہ بہت سے ایسے اشعار اس مجموعہ میں شامل ہیں جنہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسکا دوسرا مجموعہ اسے مذید کامران کرنے کا سبب ہوگا ۔
ایک وقت تھا کہ اردو زبان دیہات تک نہیں پہنچی تھی اس وقت اگر کوئی بڑے شہر سے دیہات میں آتا اور اردو میں بات کرتا تو اس گاوں کے لوگ یا عزیزو اقارب اس شخص یا بچے کا تمسخر یوں اڑاتے تھے "واڈا آیا اردو بولن آلا "ہنستے تھے فقرے کستے تھے ۔ اب تو وہ دور ہے جہاں بجلی پانی گیس نہیں پہچی وہاں پیدا ہونے والے بچے کو بھی اردو میں بات کرتے سنا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب اردو زبان کے دو درجے ہیں ایک روز مرہ کی گفتگو میں بولے جانے والی اردو زبان اور ایک ادبی اردو زبان ہے ادبی اردو زبان
خالص اور بمعانی الفاظ پر مشتمل ہے اور گفتگو میں عام لوگ جو بولتے ہیں اسے سلیس , آسان زبان کہا گیا ہے ۔
یوں ہم نے شعر کو بھی زبان کے اعتبار پر منفرد حثیت میں رکھا تاکہ شعر اور عام گفتگو کا فرق واضع ہو جاۓ ۔
مشروط میں ادبی اردو زبان کے معیاری اشعار موجود ہیں وہیں عام فہم اشعار بھی ہیں جن میں اظہار محبت ,
جدائی , خواہش , خواب , حسن , جیسے موضوعات ہیں
ایسے چند اشعار اپکے زوق سخن کے لۓ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے بعد اس امید سے کہ بات ہو سکے
ہمارے بعد بند نمبروں کو بھی ملاو تم
۔۔۔۔۔۔۔۔
دل پہ دستک دی رات بھر عبدی
وہ سمجھی کوئی لٹیرا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو زبان کو اب آہستہ آہستہ انگریزی کھاتی جاتی ہے
اس کی وجہ انگریزی کی تعلیم ہے اور گھریا میل جول کا ماحول ہے یعنی جب اپ ایسی محافل میں بھیٹھیں گے تو لازم ہے اس محفل میں بولے جانے والی زبان کے الفاظ کا استعمال اپکے لکھنے میں آۓ گا اردو زبان کی یہ خاصیت ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو قبول کر لیتی ہے اس قدر قبول کرتی ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ لفظ اس زبان کا نہیں ہے شاعروں نے سنسکرت سے لے کر آج کی انگریزی کے الفاظ کو بھی شعروں میں استعمال کیا ہے
کیونکہ اب انگریزی کے الفاظ روز مرہ کی گفتگو میں بولے جاتے ہیں زبان کوئی بھی وہ ارتقاع میں رہتی ہے
کچھ ایسے شعرمطالعہ فرمائیں
ڈھانپ کر گزرا کرو اپنا شباب
لوگ ٹکرا جاتے ہیں فٹ پاتھ سے
۔۔۔۔۔
رات اٹھ اٹھ کے جو میسج کیا کرتے تھے ہم
کمپنی والے سمجھ کروہ مٹا تے جانا
غرض یہ کہ ” مشروط ” میں موجود خیال و خواب عشق و محبت , چاہت اور بے وفائی جیسے سفر کی روداد کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں مختلف موضوعات جو جذبات کی عکاسی کرتے ہوۓ ادبی دنیا میں پہلے پڑاو سے دوسرے پڑاو کی جانب رواں پیں دوسرا مجموعہ عبیداللہ عبدی کے پکے رنگ کا فیصلہ دے گا ابھی اس کے جذبات اور خیالات کو "مشروط ” کے طور ادبی دنیا میں خوش آمدید کہتے ہوۓ مبارک پیش کرتے ہیں اور دوسرے مجموعہ کی امید بھی رکھتے
دعا کہ عبید اللہ عبدی اپنے نیک عزائم میں کامیابی حاصل پاۓ آمین
فونڈر عالمی ادب اکادمی عرفان خانی