غزل
خود اپنے نفس سے کچھ ایسے انحراف کریں
کہ دل نہ مانے جسے اس کو بھی معاف کریں
گزشتہ رنجشوں سے ایسے دل کو صاف کریں
ہر انشقاق بھلا کر ہم ایتلاف کریں
تمہارے وصل کی منت اتارنے کے لیے
تمہارے حلقہءِ قربت میں اعتکاف کریں
سماج ، رِیت، مقدر، گمان اور خدشات
ترے حصول میں کس کس سے اختلاف کریں
طلِسمِ ہوش ربا اپنے شہر میں لائیں
ہم اپنی شملہ پہاڑی کو کوہ قاف کریں
ہم اپنے رنج فقط اپنی ذات تک رکھیں
ہنسی کو اپنے غموں کے لیے غلاف کریں
کہ مل ہی جائے کوئی بھید اپنی قسمت کا
چلو کہ بڑھ کے فلک میں کہیں شگاف کریں
دعا ہے کعبہ کی یوں حاضری مقدر ہو
قدم ملا کے قدم سے ترے ، طواف کریں
مری غزل کو ملی تم سے روشنی ہمدم
کرن کرن کو مرے لفظ انعطاف کریں
عنبرین_خان