جنون کی دکاں اور خوابوں کی کرنسی
*** انجم سلیمی ***
کرن منتہیٰ کی شاعری ایسے خواب کی مانند ہے جو لفظوں کی بجائے خاموشیوں سے بُنا گیا ہو۔ وہ شاعرہ جو قد کی رعایت کسی کو نہیں دیتی، کائنات کو چپ کی زبان میں لکھتی ہے، اور ہر شعر کے پردے میں ایک صدی کا دکھ پہنا دیتی ہے۔
ان کے ہاں "جنوں کی دکاں” کوئی استعارہ نہیں، بلکہ ایک وجودی تجربہ ہے — ایسا دل جو نہ صرف بازارِ حیات سے الگ ہے، بلکہ خود ایک چھوٹا سا کائناتی سوال بن چکا ہے۔
کرن منتہیٰ کی شاعری وہ آئینہ ہے جس میں صرف چہرے نہیں، وقت کی تھکن، ذات کی پیاس، اور لمحوں کی لاشیں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری میں سادگی کی تہہ میں پیچیدگی، نرمی کے پردے میں تیز دھار، اور خاموشی کے حاشیے میں ایک صدیوں کی صدا چھپی ہوئی ہے۔
ان کے اشعار بسا اوقات ایک ذاتی درد سے نکل کر اجتماعی سانحے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی پرانی، اجنبی لیکن قریبی آواز اُس کے اندر سے بول رہی ہے:
یہ کائنات مری چپ کو ہاں سمجھتی تھی
یہ محض ایک مصرع نہیں، ایک عہد کی گواہی ہے — جب عورت کا بولنا بغاوت تھا، اور چپ رہنا رضا مندی سمجھا گیا۔ کرن کی شاعری میں ایسی عورت بولتی ہے جو بھلے فراموش ہو چکی ہو، مگر اس کا احساس زندہ ہے، شدید ہے، اور سوال بن چکا ہے:
میں اپنے آپ کو اکثر نظر نہیں آتی
ان کے ہاں عشق ایک سطح پر فرد کی شناخت کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن اس میں کسی فلمی رومانس کی بجائے ایک فکری کرب ہے، ایک ایسا فاصلہ ہے جو مکمل ہونے کی دعا نہیں کرتا بلکہ ادھورے پن کی گہرائی کو آواز دیتا ہے:
ہم لوگ یونہی بیٹھ گئے ہیں پئے رونق
بازار میں ہر چیز کی قیمت نہیں ہوتی
ان کا محبوب، ان کا وجود، ان کا خواب، سب اک بے نام کائنات میں سوال کی طرح موجود ہیں۔ وہ شاعری کو بُنا ہوا خواب نہیں بناتیں، وہ خواب کو پھٹے ہوئے کپڑے کی طرح کاندھے پر ڈال کر چلتی ہیں، کبھی کھونٹی پہ ٹنگی خوشبو کی صورت، کبھی ہجرت زدہ غزل کی مانند:
کھونٹی پہ لٹکی رہ گئی خوشبوۓ گل بدن
وہ شخص پھر نہ لوٹ کے آیا مکان میں
کرن کی زبان میں وہ فکری وسعت بھی ہے جو”شش جہت” کے شور کو سن سکتی ہے، اور وہ لطافت بھی جو “داستاں گو” کو اپنی تمثیل بنانے سے روکنا چاہتی ہے
ان کی شاعری میں رومان ہے، مگر وہ محض ایک دو جسموں کا باہمی ربط نہیں، بلکہ روحوں کی طویل جنگ و جدل ہے۔ ایک ایسا عشق ہے جو دہلی سے بنارس اور بنارس سے اٹک تک کا سفر کرتا ہے — صرف محبوب کے لیے نہیں، بلکہ مکمل شناخت کے لیے۔
جنگ کے حالات سے نکلے تو لمبی سیر کو
پہلے دہلی، پھر بنارس، پھر اٹک جائیں گے ہم
کرن منتہیٰ کی شاعری خوشبو کی طرح مکان میں رہ جاتی ہے، ہچکی کی طرح رات بھر جگاتی ہے، اور جیسے ماتھے پہ ثبت بوسہ — یاد بن کر رسنے لگتی ہے۔ ان کے ہاں لفظوں کا انتخاب فقط فن نہیں، خودکلامی کی سطح پر ایک اضطراب ہے — جسے وہ فن کا پیرہن پہنا دیتی ہیں۔
کرن منتہیٰ کی شاعری ایک ایسی خاتون کی دستاویز ہے جو صرف عورت نہیں، آواز ہے۔ وہ اپنے وجود، اپنے ہجر، اور اپنی بصیرت کو اتنے خاموش مگر گہرے طریقے سے لکھتی ہیں کہ قاری کی اپنی خاموشی چٹخنے لگتی ہے۔ ان کی شاعری میں خوشاب کی مٹی کی سونگھ بھی ہے اور کائناتی تنہائی کی سرد مہری بھی۔
یہ شاعری نہیں، ایک خواب کی آنکھ سے گرتی ہوئی بارش ہے — جس میں بھیگنا لازم ہو جاتا ہے
کرن کی شاعری میں عورت محض ایک کردار نہیں، وہ خود شاعری کا اسلوب ہے۔
وہ خود کو نہ دیکھ پانے کا نوحہ بھی لکھتی ہیں اور خود کو فراموش کر دیے جانے کا رنج بھی:
میں اپنے آپ کو اکثر نظر نہیں آتی
کسی نے ایسے فراموش کر دیا ہے مجھے
یہ اشعار صرف عورت کے نہیں، ہر اس فرد کے ہیں جو نظرانداز کیے جانے کے کرب سے گزرا ہو — جو کائنات کے بازار میں اپنی قیمت ڈھونڈتا پھرے اور ہاتھ میں صرف خوابوں کی کرنسی ہو۔
محبت، ان کی شاعری میں کوئی نرم جذبہ نہیں، بلکہ خودی کی تلاش کا خارزار سفر ہے۔
یہ وہ عشق ہے جو ہجرت کی دھول میں لپٹا ہے، دھرتی کے بٹوارے سے زخمی ہے، اور خوابوں کی ریشم سے مرہم کرتا ہے۔
ہم اپنا گمشدہ حصہ تلاش کرتے تھے
تمہارے پاس ہم اپنی تلاش میں آئے
اور پھر وہ لمحہ آتا ہے جب وہ شاعری کو خواب، بازار، دشت اور آسمان — سب میں ایک ساتھ گونجنے دیتی ہے
خواب ہے خواب رہے، چہرۂ تصویر نہ ہو
داستاں گو مرے اِس زخم کی تشہیر نہ ہو
کرن منتہیٰ کی شاعری، ہچکی بن کر راتوں میں جگاتی ہے، اور لفظوں سے زیادہ وقفوں میں بولتی ہے۔
یہ شاعری نہیں، خامشی کا وہ نوحہ ہے جو ہر حساس دل کے اندر پہلے سے گونج رہا ہوتا ہے، بس کرن کی شاعری اسے آواز دے دیتی ہے۔
ان کے یہ اشعار دیکھیئے دوستو
میں قد کی رعایت نہیں دے سکتی کسی کو
حصہ جو مرا ہے مجھے بونے نہیں دیتے
بھرا ہوا کھچا کھچ ڈرا کے مادے سے
یہ دل ، میں جس کو جنوں کی دکاں سمجھتی تھی
زبان کاٹ کے لے جاتے تھے بڑے سردار
یہ کائنات مری چپ کو ہاں سمجھتی تھی
میں اپنے آپ کو اکثر نظر نہیں آتی
کسی نے ایسے فراموش کر دیا ہے مجھے
ہر رات مرے دل پہ گزرتی ہے قیامت
یہ کیسی اداسی ہے کہ رخصت نہیں ہوتی
ہم لوگ یونہی بیٹھ گئے ہیں پئے رونق
بازار میں ہر چیز کی قیمت نہیں ہوتی
میں منتظر ہوں کہ نظر ِ کرم کی بھیک ملے
وہ کہنے کو تو کئی بار دیکھتے ہیں مجھے
سیاہ نقطہ ہوں لیکن وجود ہے تو سہی
تمام حاشیہ بردار دیکھتے ہیں مجھے
کھونٹی پہ لٹکی رہ گئی خوشبوۓ گل بدن
وہ شخص پھر نہ لوٹ کے آیا مکان میں
عجیب طور سے ہم بود و باش میں آئے
تماش بین تھے حالِ تماش میں آئے
ہم اپنا گمشدہ حصہ تلاش کرتے تھے
تمہارے پاس ہم اپنی تلاش میں آئے
اس سے پہلے نہیں تھی یہ رونق
اس سے پہلے یہ کائنات نہ تھی
مدتوں بعد رابطہ ہوا تھا
اور کرنے کو کوئی بات نہ تھی
ذرا سی دیر کو تھم جائے شش جہت کی رفت
یہ کیسا شور ہے چاروں طرف مچایا ہوا
نگار خانہء دل ہے کہ کوئی داغِ دہن
ہوا کے چاک گریبان سے چرایا ہوا
عجب ہے دورِ زیاں اور کسی کو کچھ بھی نہیں
کسی کو سارا جہاں اور کسی کو کچھ بھی نہیں
کہیں ہے تیز نظر اور کہیں پہ بے بَصَری
کسی کو رب کا گماں اور کسی کو کچھ بھی نہیں
میری آنکھوں کا جو اسیر ہوا
دیکھتے دیکھتے فقیر ہوا
سائے دیواروں پر امڈ آئے
خواب آنکھوں میں لیر و لیر ہوا
فلک نے دیکھا نہیں ان کو ، پیچ و تاب لیے
کہ باغ جھوم رہے تھے گل آفتاب لیے
ہمیں خبر تھی یہ دنیا نہیں ہے چشم براہ
گھروں سے نکلے تھے ہم لوگ جب کتاب لیے
ملا ہے باغ میں ، پہچاننے سے ڈرتا ہے
ہمیں جو خواب میں ملتا رہا گلاب لیے
خواب ہے خواب رہے ، چہرۂ تصویر نہ ہو
داستاں گو مرے اِس زخم کی تشہیر نہ ہو
یوں نہ ہو جائے کہ تمثیلِ قبا ہو جاؤں
اس تکلف سے مرے ساتھ بغل گیر نہ ہو
ہم بھی سفر کے ہاتھوں دو لخت ہوگئے ہیں
راہوں کو سونپ آئے ہم ہمسفر ہمارا
لو ہم نے بانٹ لی ہے ساری حیات تم سے
آدھا سفر تمہارا آدھا سفر ہمارا
بخشا ہے مجھے ہجر بہاروں کے دنوں میں
اے شخص تجھے خوف خدا کا نہیں آتا
ناچیز ہے ہر چیز مرے شعر کے آگے
میں شیخِ بلاغت ہوں مجھے کیا نہیں آتا
باتوں باتوں میں چلے گا ذکر تیرا دفعتاً
اور تیرے نام پر یک دم اٹک جائیں گے ہم
جنگ کے حالات سے نکلے تو لمبی سیر کو
پہلے دہلی، پھر بنارس ،پھر اٹک جائیں گے ہم
صرف ہم دونوں کو لاحق ہے یہ دوری رات میں
چاند ہے پورا وگرنہ اس ادھوری رات میں
صبح دم اپنے گھروں کو چل دیے بوڑھے دیے
رہ گئیں باتیں جو کرنی تھیں ضروری رات میں
سارا دن کمرے میں سورج جھانکتا ہے مستقل
کرتے ہیں ہم جگنوؤں کی جی حضوری رات میں
بندھ گئی کاہے یہ ہچکی ، کاہے ترسے مورے نین
ہائے رام ایسا انرت اور ایسی نوری رات میں
دیجے نہ داد شوخ بیانی کو دیکھ کر
تعریف کیجے مصرعِ ثانی کو دیکھ کر
نعمت ملی تھی سہنے کی طاقت سے ماورا
صحرا نشین مر گئے پانی کو دیکھ کر
ماتھے پہ ثبت بوسہ نمودار ہوگیا
رسنے لگے ہیں زخم ، نشانی کو دیکھ کر
بحثیں چھڑی تھیں صلح کی اور دونوں بادشاہ
بیٹھے بٹھائے لڑ پڑے رانی کو دیکھ کر
میں چپ رہی ، پرندوں نے محشر بپا کیا
یکدم تمہاری نقل مکانی کو دیکھ کر