خیر خواہوں سے بھی ملا کیجے
دل کی دستک کو بھی سنا کیجے
لوٹ کر جلد آئے گا اس کے
نقش پا دیکھتے رہا کیجے
گر وہ کرنا ہے جو کہے دل تو
پھر کسی سے نہ مشورہ کیجے
دوستوں سے مل کے آستینں
احتیاطاً جھٹک دیا کیجئے
اک نظر دیکھنے پہ کوئی
پھول بھیجے اگر تو کیا کیجے ؟
دوسروں کو نہ دیکھئے صاحب
آپ کا ہے جو حق ادا کیجے
جو کہیں دوسرے وہ سن لیں مگر
آئنہ دیکھتے رہا کیجے
دل میں رکھ کر قبولیت کا یقیں
کیجئے دل سے جو دعا کیجے
ہے صبیحہ وہ ظلم کا خوگر
اس سے کیا اس کا پھر گلہ کیجے
صبیحہ خان صبیحہ