MOJ E SUKHAN
No Record Found
کلرکوں کی سبھی میزوں پہ انورؔہر اک فائل مزے سے سو رہی ہے
اگرچہ کام سارے رک گئے ہیںمگر میٹنگ برابر ہو رہی ہے
انور مسعود
سنو یہ غم کی سیہ رات جانے والی ہے
رونق ارض و سما ہے مجھ میں
میں تیری آنکھ میں رہ کر حجاب ہو جاؤں
تجھ سے بچھڑ گئی کہ جہاں سے بچھڑ گئی
لے گیا وہ ساتھ اپنے حسن سارا شام کا
یہ بات میری نہیں بات میرےخواب کی ہے
یہی تمنائے دل ہے ان کی جدھر کو رخ ہو ادھر کو
دھیان میں آ کر بیٹھ گئے ہو تم بھی ناں
اتر کے جھیل میں جب آفتاب مرنے لگے
آتش دلِ زار میں لگائی اس نے رباعی
تھا ہم سے بھی ربط یا کہ نہ تھا
جب سے وہ گئے ادھرنہیں یاد کیا رباعی
یہ حکم خدا کا کہ قطرہ مے کا نہ پیوں – Ye
مومن لازم ہے وضع مرغوب بنے
رباعیات حکیم عمر خیام نیشا پوری
کیا تیری جدائی میں ستم دیکھتے ہیں رباعی امیر مینائی
غائب بہت اے جان جہاں رہتے ہو رباعی امیر مینائی
باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں رباعی قلندر
سب ستارے لٹا دیۓ میں نے
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
اک چراغِ آرزو پھر سے جلانا ہے مجھے
عشق جب تک جان و دل کا رہنما ہوتا نہیں
رازداں ہم نے بنایا آپ کو
جرم الفت کی سزا دینے لگے
از رہِ التفات بنتی ہے
میں نے تو درد کو سینے میں چھپا رکھا ہے
سنو اے باوفا لڑکے
تمہاری خاطر نقاب اوڑھوں نہ گھر سے نکلوں
تیرے جانے سے کچھ نہیں بدلا
ہو نے سر جو بدلا ہے
ادھر ادھر کی نہ تم سنانا بچھڑنے والے بتا کے جانا
آجکل دل کا عجب حال ہوا ہے جاناں
جا ترے بس میں نہیں یار محبت کرنا
نظم ہونے لگی
سنو میں مان لوں کیسے تمہیں مجھ سے محبت ہے