غزل
درد دل کون آزماتا ہے
کون بے چینیاں بڑھاتا ہے
رات بھر جاگتے رہے ہو تم
جانے کیا غم تمہیں ستاتا ہے
ہنستے ہنستے جو رونے لگتے ہو
کچھ کہو کون یاد آتا ہے
جس نجومی نے تھی ہتھیلی پڑھی
کیا مقدر بھی وہ جگاتا ہے
جسے کرنا ہو کوئی وعدہ وفا
تو وہ پھر لوٹ کر بھی آتا ہے
کوچۂ حسن تو گیا سالم
پر یہ دل ٹوٹ کر ہی آتا ہے
مان لیتی ہوں اس کا کہنا بھی
جانے پھر روٹھ کے کیوں جاتا ہے
ماہم شاہ