24/02/2025 09:00

دل اس کے ملنے کا جب ختم ہر امکان کر دے گا

دل اس کے ملنے کا جب ختم ہر امکان کر دے گا
وہ میرے سامنے آ کر مجھے حیران کر دے گا

جسے بھرلوں گا میں اپنی رگوں میں خون کی صورت
خبر کیا تھی وہی تنہائی کا سرطان کردے گا

پڑے گا ہاتھ جب مظلوم کا ظالم کی پگڑی پر
وہ شاطر پھر کوئی مسرور کن اعلان کردے گا

سجا کر عدل کی میزان گھر کی بالکونی پر
کسی کو کیا خبر وہ کس کا کیا نقصان کردے گا

ہلاکو کی طلب ہو تو یہ نقطہ دھیان میں رکھنا
جو فطرت کا لٹیرا ہو نگر سنسان کردے گا

عطا سے پہلے وہ اندازہِ توفیق کرتا ہے
کسی کو جوہرِ ذاتی خدا پہچان کردے گا

عطا کا خاص ہے انداز اس کی بے وفائی میں
وہ مجھ کو زخم بھی دے گا تو اک احسان کردے گا

خلیل اس کی رفاقت پر تمہیں کتنا بھروسا ہے
کسی دن دیکھنا وہ چوٹ تم کر جان کر دے گا

مشتاق خلیل

مزید شاعری