Dil Kay Bahlany ka Saman Na samjha jayee
غزل
دل کے بہلانے کا سامان نہ سمجھا جائے
مجھ کو اب اتنا بھی آسان نہ سمجھا جائے
میں بھی دنیا کی طرح جینے کا حق مانگتی ہوں
اس کو غداری کا اعلان نہ سمجھا جائے
اب تو بیٹے بھی چلے جاتے ہیں ہو کر رخصت
صرف بیٹی کو ہی مہمان نہ سمجھا جائے
میری پہچان کو کافی ہے اگر میری شناخت
مجھ کو پھر کیوں مری پہچان نہ سمجھا جائے
میں نے یہ کب کہا روحیؔ کہ مرے جیون میں
میرے سائیں کو مری جان نہ سمجھا جائے
ریحانہ روحی
Rehana Roohi