غزل
دکھ تو دیتا ہے کروں میں تجھ کو حیراں تو سہی
باغباں اب کے اجاڑے تو گلستاں تو سہی
ابر میں دیتا نہیں تو مجھ کو اے ساقی شراب
میں کروں شیشہ کو تیرے سنگ باراں تو سہی
اب تو ناصح کے تئیں سینے دو میرا چاک جیب
تار تار اس ضد سے کر دوں میں گریباں تو سہی
لوگ کب خاطر میں لاتے ہیں مرے ویرانے کو
اشک خوں سے باغ کر ڈالوں بیاباں تو سہی
اپنے بندوں کو جلا کر خاک کرتے ہیں یقیںؔ
ان بتوں کی ضد سے ہو جاؤں مسلماں تو سہی
انعام اللہ خاں یقیں