Dekh Bahar Bilak Rahi Hay Raat
غزل
دیکھ باہر بلک رہی ہے رات
مثلِ بچہ ہمک رہی ہے رات
قطرہ بن کر ٹپک رہی ہے رات
بن کے خوشبو مہک رہی ہے رات
چاند تارے تو اک طرف لیکن
کس کے بل پر چمک رہی ہے رات
گمشدہ دن تو مل نہیں پایا
کیا ابھی تک بھٹک رہی ہے رات
بابِ حیرت سے جھانکتے تارے
کیا سبب ہے دمک رہی ہے رات
آپ کی ہم نوائی کے صدقے
ہو لے ہو لے لہک رہی ہے رات
پلکیں کیونکر یہ جگمگاتی ہیں
کیا کہا دل بہک رہی ہے رات
صبح نکلے گا اک نیا سورج
بن کے کانٹا کھٹک رہی ہے رات
نام جس کا تجھے نہیں معلوم
اسکی خاطر سسک رہی ہے رات
آگ برکھا نے وہ لگا دی ہے
چپکے چپکے سلگ رہی ہے رات
جام جس کو نہیں ملا فہمی
نام اسکے چھلک رہی ہے رات
فریدہ عالم فہمی
Fareeda Aalam Fehmi