دیکھنا یہ کون بے پردہ نمایاں ہو گیا
ایک عالم بے نیاز کفر و ایماں ہو گیا
کے اپنے کبر پر زاہد پشیماں ہو گیا
زہد نے اتنی ترقی کی کہ عصیاں ہو گیا
اس کی برگشتہ نصیبی پر کہاں تک روئیے
کوئی گلستاں جو بہار آتے ہی ویراں ہو گیا
رحم کر اے مژدۂ وہم مسرت رحم کر
دیکھتا ہوں غم کا شیرازہ پریشاں ہو گیا
پھر کوئی نکلا ہے گھر سے لے کے دنیائے شباب
پھر کسی کم بخت کے مٹنے کا ساماں ہو گیا
کھل ہی جاتا ایک دن تیری مسیحائی کا راز
کوئی تو یہ کہیے کہ غم کا نام درماں ہو گیا
بحر وحدت سے اٹھی تھی ایک بے تابانہ موج
عالم کثرت میں جس کا نام انساں ہو گیا
ٹھوکروں ہی ٹھوکروں میں پا گئے منزل کو ہم
مشکلوں ہی مشکلوں میں کام آساں ہو گیا
آج کچھ اس دھن میں چھیڑا میں نے ماہرؔ ساز عشق
ذرہ ذرہ کاک ہستی کا غزل خواں ہو گیا
ماہر القادری