غزل
دیے کی لو مری جانب لپک رہی ہے اب
یہ بات سارے جہاں کو کھٹک رہی ہے اب
یہ جان کر کہ مرے سر سے آسمان گیا
زمین پاؤں تلے سے سرک رہی ہے اب
جو بات برسوں تلک آئنے سے کرتی رہی
وہ تجھ سے کہتے گلے میں اٹک رہی ہے اب
تمہارے وعدے کے سونے کا کھوٹ ہے دیکھو
یہ میرے سر میں جو چاندی چمک رہی ہے اب
کسی طرح مجھے خود کو سنبھالنا ہوگا
اداسی آنکھ سے باہر چھلک رہی ہے اب
ہماری آنکھ لگی ہے گھڑی کی سوئی پر
ہماری نبض مسلسل پھڑک رہی ہے اب
بلقیس خان