رائیگانی تو مرے خواب کہاں پھینکتی ہے
کیا وہیں خلق جہاں کار_ زیاں پھینکتی ہے
گھر کا آنگن کوئ مدفن تو بہاروں کا نہیں
زرد پتے یہاں کیوں لا کے خزاں پھینکتی ہے
اک سمندر ہے جہاں سیپ پنپتے ہی نہیں
آستیں پونچھے ہوئے اشک وہاں پھینکتی ہے
خاک کو خاک بناتی ہے چلو مان لیا
موت لیکن لب و رخسار کہاں پھینکتی ہے
کیسہ_ خاص میں رکھتی ہے یقیں کے سکے
عقل اوروں کی طرف وہم و گماں پھینکتی ہے
کچھ تو قدموں سے لپٹ رہتے ہیں سائے کی طرح
روشنی سارے اندھیرے بھی کہاں پھینکتی ہے
واجد امیر