راحتیں اپنی جائداد نہیں
اب انہیں ہم پہ اعتماد نہیں
روز اپنا بیاں بدلتے ہو
کیا تمہیں خود سے اتّحاد نہیں
اس حقیقت کا ذمّہ لوں کیسے
عقل کا قلب سے تضاد نہیں
عکس کی لغزشیں معاف کرے
آئنہ اس قدر بھی شاد نہیں
مصلحت ہے ، خموش بیٹھے ہیں
کونسا دور ہم کو یاد نہیں
زہرِ غم سے وہ چشم پوشی کرے
آہ اتنی بھی نامراد نہیں
دوستوں کی عنایتیں ایسی
دشمنوں سے کوئی عناد نہیں
وقعتِ عشق خاک سمجھے گا
حسن سے جس کو اعتقاد نہیں
اس قدر وصل کی خوشامد کیوں
ہجر میں کیا کوئی سَواد نہیں
کیوں ہو اتنے اُتاولے منظور
صبر میں کیا کوئی مفاد نہیں
احمد منظور