راستے سب ہی اگر بند ہوں مرنے کے سوا
زندگی جیتا تو کس طور میں لڑنے کے سوا
دل حویلی میں سسکتی ہو اگر تشنہ لبی
اور کچھ کرتی نہیں آنکھیں برسنے کے سوا
میں نے پیروں میں سفر باندھ لیا جس کے لیے
اس کو آتا ہی نہیں کچھ بھی سنورنے کے سوا
دل کی گلیوں میں اگر ہونے لگے شورِ انا
چارہ گر چارہ نہیں ہوتا بکھرنے کے سوا
تھا اسے علم کے ہو جائے گا رسوائے جہاں
عشق کیا کرتا مرے دل میں اترنے کے سوا
ہم وہ اشرف ہیں سرِ بزم تماشائے حیات
کر نہیں پائے جو کچھ وقت سے ڈرنے کے سوا
منزلیں ملتی نہیں ملتا نہیں رازِ حیات
ڈوب کر درد سمندر میں ابھرنے کے سوا
شامِ غم کیسے کٹے کیسے کٹے ہجر کی رات
مشورہ دے کوئی دل جاں سے گزرنے کے سوا
اس لیے کر گئی تنہائی مجھے اپنا شکار
مجھ کو آیا ہی نہیں کچھ بھی ترسنے کے سوا
جب مرے نام ہے اس موجِ نسیمی کی وفا
اور کیا کرتا میں پر اپنے کترنے کے سوا
نسیم شیخ