رسم احساس ہی دنیا سے مٹا دی جائے
اب نہ پھولوں کو مہکنے کی ادا دی جائے
اب نہ آنگن میں کسی پیڑ کو رکھا جائے
چھاؤں دینے کی انہیں بھی تو سزا دی جائے
اب یہ زنجیر مجھے روک نہیں پائے گی
اب مرے پاؤں پہ زنجیر بنا دی جائے
اب یہ شعلے بھی ہواؤں کو بہت پیارے ہیں
اب زرا سوچ کے ان کو بھی ہوا دی جائے
میری آنکھیں جو نکالو تو جلا دینا انہیی
راکھ پھر کوچہ ٗ جاناں میں اڑا دی جائے
ہوش میں آنا مرا کوئی کہاں مشکل ہے
بس کہ آواز تری مجھ کو سنا دی جائے
ہو کوئی ایسا مرے دکھ کو جو سن کر روئے
میری دیوار پہ اک آنکھ بنا دی جائے
مجھ کو جینے کی دعا دینے سے پہلے انصر
میرے دشمن کو بھی جینے کی دعا دی جائے
انصر رشید انصر