Reet Phaanki Gaee aur dhool Urraai gaee Hay
غزل
ریت پھانکی گئی اور دھول اڑائی گئی ہے
دشت میں دور تلک آبلہ پائی گئی ہے
سلسلے کن فیکوں کے ہو گئے سارے تمام
لاش میری کسی صحرا سے اٹھائی گئی ہے
تیری آنکھوں کا یہ پھیلا ہوا کاجل توبہ
روح تک چشمِ نمیدہ کی رِسائی گئی ہے
میں پہاڑی سے علاقوں کا ہوں چرواہا
اور تو ناقہ فروشوں میں بنائی گئی ہے
رات کاٹی گئی سبزے سے بھرے کھیتوں میں
صبح دم اوس ترے لب سے اٹھائی گئی ہے
کھینچتی ہیں یہ ہری پور کی شامیں مجھ کو
تو کراچی کی ہواؤں میں بسائی گئی ہے
چاک پر کن کے مراحل سے گزرتی مٹی
خاک میں پھر فیکوں کہہ کے ملائی گئی ہے
وہ کئی بار کسی جھوٹی خبر پر حامیؔ
میرے دیدار کو دہلیز پہ آئی گئی ہے
حمزہ حامیؔ
Hamza Haami