زبان بند رہی دل کا مدعا نہ کہا
مگر نگاہ نے اس انجمن میں کیا نہ کہا
محیط شوق میں ہم ڈوبتے ابھرتے رہے
خدا گواہ کبھی جور نا خدا نہ کہا
صنم کدہ ہے کہ اک محفل خدا ونداں
بہت خفا ہوا وہ بت جسے خدا نہ کہا
ہزار خضر نما لوگ راستوں میں ملے
ہمارے دل نے کسی کو بھی رہنما نہ کہا
یہ کائنات تو ہے خیر مجھ سے بیگانہ
اگر نگاہ نے تیری بھی آشنا نہ کہا
اختر انصاری اکبر آبادی