زمیں زادوں سے لڑنا ہی پڑے گا
قبیلہ تب مرا زندہ رہے گا
چٹانیں پھاڑ کر نکلے شجر جو
وہ طوفانوں سے پھر کیسے ڈرے گا
بناؤں کربلا گر کینوس پر
لہو رنگوں سے پھر بہنے لگے گا
ہوا نے جو سنا نیزے پہ قرآں
سنے پتھر تو وہ رونے لگے گا
دیا کب آس کا بجھتا ہے لوگو
یہ جلتا ہے بجھے گا پھر جلے گا
یہ سورج کب اندھیروں سے ڈرا ہے
اجالا یوں ہی یہ کرتا رہے گا
کوئی بیٹی ہو رخصت جب کسی کی
تو گھر میں ایک سناٹا رہے گا
نہیں ہوگا زمانے میں تو امبر
فسانوں میں مگر زندہ رہے گا
عبدالمجید راجپوت امبر