زندگی ہم نے تجھے زیرِ مسائل رکھا
موم کی گڑیا کو سورج کے مقابل رکھا
مجھ کو اپنی ہی شباہت نظر آئی اُس میں
سامنے اُس نے مرے جب مرا قاتل رکھا
کر دیا مجھ کو خلاوں میں معلق اُس نے
اُس نے جب مجھ کو مرے مد مقابل رکھا
خود مجھے وقت کے طوفان میں پھینکا اُس نے
ڈوبتے وقت مرے سامنے ساحل رکھا
جس کے پانے کو میں کھاتا رہا جھوٹی قسمیں
سچی چاہت سے بھی اُس نے مجھے غافل رکھا
میں نے سوچوں میں بنائی تیری صورت پہلے
پھر تجھے اپنی ہی سوچوں کے مقابل رکھا
ایک پل شورشِ میخانہ ِہستی میں رہے
اور اُسی پل نے تری یاد سے غافل رکھا
ٹوٹ پایا نہیں ہم سے کوئی رشتہ بھی مرادؔ
زخم بھرتے بھی گئے ،دل کو بھی گھائل رکھا
شفیق مراد