Zeest ko Khwaab nahi aik Haqeeqat kejyee
غزل
زیست کو خواب نہیں ایک حقیقت کیجے
ناکہ خوابوں میں سفر کرنے کی حسرت کیجے
شمعِ اُمید کو تنویر کی صورت کیجے
سینچ کر خون سے گلستاں کی حفاظت کیجے
گو کہ دشوار ہے دشمن سے بھی اُلفت کرنا
دل کو پتھر نہیں بس موم کی صورت کیجے
دے کے غم اپنی جدائی کا بھی ہم کو جاناں
دل کے صحرا میں ہمارے یوں نہ وحشت کیجے
رات تو بیت گئی اپنی ستارے گنتے
شبِ مہتاب میں یادوں کو عبارت کیجے
“ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا”
پیر و طِفل اور فقیروں سے بھی شفقت کیجے
دل تو ٹوٹا ہے درخشاںؔ یہ ہمارا لیکن
کوئی شکوہ نہ شکایت، نہ عداوت کیجے
درخشاں صدیقی
Darakhshan siddiqui