غزل
سائے کے حق میں کچھ نہیں میرے بیان میں
جو آپ چھپتا پھرتا ہے ہر سائبان میں
یہ چھوٹے چھوٹے شوق بھی اس کو روا نہیں
جس کو بڑا بنایا گیا خاندان میں
مجھ کو ہے آدمی سے توقع خلوص کی
سونا تلاش کرتا ہوں مٹی کی کان میں
قد سے نہیں بنائی ہے پہچان جست سے
یہ فرق ہے ہماری تمہاری اٹھان میں
مٹی میں ملنے والے ہیں کل اس کے چیتھڑے
اڑتی رہے پتنگ بھلے آسمان میں
چپ رہ سکے جو آدمی چپ کے مقام پر
یہ خامشی ہو زمرۂ فوق البیان میں
اب تک ہمیں خبر ہی نہیں تھی کمال ہے
نکلے ہیں ہم بھی آپ کے دل دادگان میں
فطرت سے کچے پکے تعلق کی بات کیا
مٹی کی باس تک نہیں پکے مکان میں
رحمان حفیظ