Sanp ko Sanp hi Bulaya jayee
غزل
سانپ کو سانپ ہی بلایا جائے
آستینوں سے بھی گرایا جائے
میرے گرنے کے منتظر جو ہیں
قصہ یوسف انہیں سنایا جائے
وہ جو مخلص ہیں؛نہ مرے ہمدرد
ان سے کچھ فاصلہ بڑھایا جائے
بات کرتے ہیں سخت لہجے میں
احترام ان کو اب سکھایا جائے
درد جب خود بخود ہی سوجایئں
کیوں مسیحا کو پھر جگایا جائے
جیت جانے کا حوصلہ کر کے
کیسے؛ ہارے کسے بتایا جائے
سعدیہ سراج