غزل
سایوں کو چھوڑ، جاگتے ابدان ساتھ رکھ
زندہ ھے تو، تو خواب کا سامان ساتھ رکھ
ٹوٹے تھکے بدن کے لئے گھر بنا ضرور
گھر کی ضرورتوں کو پہ دکان ساتھ رکھ
موسم کے گھاؤ، جھیل تو، بیدار جسم پر
پر سیفٹی کو کپڑے کا اک تھان ساتھ رکھ
محشر اٹھائے پھرتی ھے یہ بھوک سی بلا
لمبا سفر ھے، تھوڑا سا، پکوان، ساتھ رکھ
رہ جائے گی، دھری کی دھری، جدتٍ غذا
اپنی زمین، کھیت اور کھلیان ساتھ رکھ
دشت وجبل میں سونے کی ترکیب ھے پلنگ
لکڑی تراش، بان اور ادوان، ساتھ رکھ
لعلٍ بدخشاں ہونٹوں کی سرخی کو آب دے
میٹھی گلوریوں میں ڈھلے پان ساتھ رکھ
خود کی نظر لگے نہ اے بیمارٍ آئینہ
زاہد سے سانولے کو، مری جان ساتھ رکھ
زاہد حسین جوہری